ان دیکھا نظام: ہمارے دماغ کا اتنا بڑا نظام اللہ جل شانہ نے اصل میں آخرت کے لیے بنایا ہے۔آخرت کاایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اس وقت جوان کو کبھی بڑھاپا نہیں آئےگا اور اُس کے حسن کو کبھی زوال نہیں آئےگا اور ستر سال بیٹھ کر ایک ہی کھانا کھائے گا جس کے ذائقے ختم ہی نہیں ہونگے اور ایک محل ایسا ملے گا جس کے سترہزار دروازے ہونگے اور ہر دروازے کے سترہزار کمرے ہونگے ۔ یہ بظاہر ہمیں(نعوذباللہ)کہانیاں نظر آتی ہیں،بظاہرمیں عرض کررہا ہوںآپ سن رہے ہیں۔ماں کے پیٹ کے اندرجو بچہ ہوتاہے اس کیلئے ماں کا پیٹ ہی سب سے بڑی کائنات ہے۔اگرچہ اسے کہہ دیا جائے کہ اتنے بڑے بڑے میدان ہونگے، اتنے بڑے جہاز ہونگے، اتنے بڑے پہاڑ ہونگے مگر اس کے سامنے تو ماں کا پیٹ سب سے بڑی کائنات ہے۔ہم زمین و آسمان کے پیٹ میں رہ کریُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِکے ساتھ اگر نہ چلے تو ہمارے سامنے نعوذ باللہ یہ کہانیاں بن جائیںگی۔ ہم زمین وآسمان کے پیٹ میں ہیں اگرہم اِدھر اُدھر دیکھیں گے توایک محل بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جس کے ستر ہزار کمرے ہوں، ہر کمرے کے ستر ہزار دروازے ہوں اور ہر دروازے پر ستر ہزار غلام اس کو مرحبا کہہ رہے ہوں۔ ایسامحل یہاں کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ شاید ایسا محل دنیا میں کہیں ہو! لیکن ایسا مکان،ایسا محل شاید نہ ہو جس کی ایک اینٹ سونے کی ہو اورایک اینٹ چاندی کی ہو اور پوری دیوار پرموتی جڑے ہوئے ہوں اور گارا مشک، کستوری اور زعفران کا ہواورایسا محل جو ہوائوں میں معلِّق ہو، جب ہمیںاس دنیا میںایسا کچھ نظر ہی نہیں آتا تو ہماری کیفیت وہ ہے جواُس بچے کی ہے جو ماں کے پیٹ کے اندر ہے اوراس کے سامنے ساری کائنات ماں کا پیٹ ہے۔ وہ اِدھر دیکھے وہ اُدھر دیکھے اُسے کچھ سمجھ نہیں آئیگی۔ اس لیے کہتے ہیں : جو آدمی کسی اللہ والے سے بیعت ہے اور کسی فقیر کے ساتھ راہِ سلوک میں چل رہا ہے وہ اِس سمجھ اور سوچ کے ساتھ چلے کہ میری کیفیت ماں کے پیٹ کے بچے کی طرح ہے ۔جو فقیر کہہ رہا ہے وہی دیکھی ہے اور میری ان دیکھی ہے، لہٰذا جو انہوں نے کہہ دیا اُس میں خیر ہی خیر ہے، تب تو ا س کو فائدہ ہوگا اگر اپنی عقل سے چلے گا تو پھر نفع نہیں ہوگا۔ شیخ و مُرشد پر اعتماد:ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک درویش آتے تھے۔دیہاتی تھے،باکل ان پڑھ تھے ۔وہ درویش حضرت سے فرمانے لگے :میںجب بھی اپنے شیخ کے پاس جاتا تھا وہ مجھے خنزیر کہتے تھے،میرے شیخ ہر وقت غصے میں اورجلال میں رہتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ توخنزیر ہے۔ درویش کہنے لگے کہ میں چپ ہوجاتا۔ وہ درویش مجھے کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میرے حضرت مجھے خنزیر کیوں فرمارہے ہیں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد مجھے خودہی سمجھ آئی کہ وہ ایسے ہی نہیں کہتے تھے میرے اندر لگتا ہے کہ کوئی خنزیر ہے۔اس لئے اپنے آپ کو خنزیرسے انسان میں بدلنے کی محنت کی کیونکہ قرآن میں ہے، ہر ایک انسان ، انسان نہیں ہوتا۔ترجمہ:’’ وہ جانور ہے بلکہ جانوروں سے بدتر ہے‘‘ اور کیونکہ خنزیر جانوروں کی بدترین قسم میں سے ہے۔ پھر وہ درویش کہنے لگے میںنے اپنے من کو بدلنے ، اپنی دنیا کو بدلنے، اپنے رزق کو بدلنے، اپنی سوچوں کو بدلنے، اپنے بو لوں کو بدلنے کی محنت کرنی شروع کردی اور اُن کا خنزیر کہنا کم ہوتاگیا،کم ہوتا گیااور ایک وقت آیا انہوں نے مجھے خنزیر کہنا چھوڑ دیا۔ وہ درویش کہنے لگے: بہت ہی عرصہ انہوں نے مجھے خنزیر نہ کہا تو ایک دفعہ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا :’’حضرت بہت عرصے سے آپ نے خنزیر نہیں فرمایا؟‘‘ حضرت کہنے لگے : ’’وہ اس لئے کہ اب تم میں خنزیر موجودنہیں ہے۔‘‘ ایک اور صاحب کووہ حضرت خبیث کہا کرتے تھے، ان صاحب کو بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک اور شخص تھاجس کو حضرت اندھا کہا کرتے تھے کہ ’’تواندھا ہے‘‘ اُن کوبھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اندھا کیوں کہتے ہیں۔ وہ حضرت کہنے لگے چونکہ مجھے سمجھ آگئی تھی تو میں نے ان لوگوں کو یہ سوچیں دیں کہ اپنے آپ کو بہتر کریں۔اس لیے فقیر جو کہتے ہیںاس میں خیر ہی خیر ہے۔
کلامِ مرشد آئینہ حقیقت: ’’قلندر چہ گویا حق گویا‘‘ قلندر جو کہتا ہے حق کہتا ہے، اِس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے جس کی ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ میں نے اُس شخص سے کہا کہ فقیر جوکہہ رہا ہے اس کو سمجھوتم یقینا اندھے ہوگے! وہ صاحب کہنے لگے: میں تو اندھا نہیں ہوں میں تو ٹھیک ہوں ، میں نے کہانہیں ! تیرا دل اندھا ہے اور جس کا دل اندھا ہوتا ہے اُس کو وہ چیز جو نظر آنی چاہیے وہ نظر نہیں آتی اور جو نظر نہیں آنی چاہیے وہ نظر آتی ہے۔ ہم مرنے سے پہلے کے نظام کو دیکھ کر چل رہے ہیں کہ ہمارا قرضہ اُتر جائے، ہماری ترقی ہوجائے، ہماری چھوٹی گاڑی سے بڑی گاڑی ہو جائے،سائیکل سے موٹر سائیکل ہوجائے، چھوٹے مکان سے بڑا مکان ہوجائے یا مکان نہیں تو کوٹھی مل جائے، اُس کی آنکھیں یہ دیکھ رہی ہیں اور یہ سب وہ چیزیں ہیں جو چھننے والی، جولٹنے والی ہیں، جو بکنے والی ہیں۔ کانچ کے بنے بنگلے والوں کے بنگلے بک جاتے ہیں یہ وہ چیزیں ہیں جو چھننے والی ہیں اورتم ان کی طرف دیکھ رہے تو یقینا اندھے نہ ہوئے تو کیا ہوئے؟ اب معالج کسی مریض کو کہہ دے کہ آپ کو ہیپاٹائٹس ہے تواُس مریض کو غصہ آئے گا ؟کہنے لگے نہیں آئیگا۔ بلکہ اُسکا شکریہ ادا کریگا کہ مجھے بیماری کا تو پتہ ہی نہیں تھا، بعض مریض یہ جملہ بولتے ہیں کہ میری بیماری کو فلاں ڈاکٹر نے تلاش کیا۔(جاری ہے)
میں بعض اوقات نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماریاں بتا دیتا ہوں تولوگ حیران ہو جاتے ہیں۔آج ایک صاحب میرے پاس اپنے میڈیکل کے ریکارڈ کی فائل لے کر آئے، میں نے کہاآپ فائل رکھ دیں میں آپ کوبیماری بتا دیتا ہوں۔ اگر آپکی بیماری، میری سمجھ میں نہ آئے تو مجھے فائل دکھا دیں۔ چنانچہ جب میں نے اللہ کی توفیق سے کچھ عرض کردیا تو کہنے لگے:میںنے تو ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرائے ہوئے ہیں، ٹیسٹ کروا کر ہی ڈاکٹروں نے میرا مرض بتایاتھا۔ مگر آپ نے کیسے بتا دیا؟
روحانی مرض پر اطلاع
اگرمریض کو جسمانی بیماری بتا دی جائے تومریض طبیب کاشکریہ ادا کرتاہے۔ اوراگرطبیب کسی مریض کو روحانی بیماری بتا دے تو مریض غصے میں آجاتا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی مریض نے اپنے طبیب سے روحانی علاج کروانے کاسوچا ہی نہیں،مریض نے کبھی اپنے آپکو روحانی مریض سمجھا ہی نہیں۔اگر مریض اپنے مرض کو نہیںسمجھے گاتوعلاج کیسے کروائے گا؟ اگراپنے آپ کو مریض سمجھے گاہی نہیں تو علاج کیسے کروائے گا؟جب ہم اپنے آپ کومریض سمجھیں گے توہی ہم کسی طبیب سے علاج کروائیں گے۔اگر مریض کو کوئی طبیب کہے کہ آپ کو روحانی مرض ہے تو مریض کوغصہ نہیں آئیگاتوکیا آئیگا؟؟؟ وہ اظہار کرے یا نہ کرے ، دل کے اندر غصّے کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں